روایات کی روشنی میں سفر میں نماز کا حکم

15:57 - 2017/01/14

خلاصہ:سفر میں نماز کو قصر پرھنا چاہیے یا پورا پڑھنا ہے روایات کو اگر صحیح طریقے سے دیکھا جائے اور سمجھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نماز کو سفر کی حالت میں قصر پڑھنا واجب ہے۔

روایات  کی روشنی میں سفر میں نماز کا حکم

     سب سے پہلے تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ اسلامی فقہ کے مسلمات میں سے ہے کہ ابتداء میں نمازوں کو قصر{ یعنی دو رکعتی} پڑھنے کا حکم { تشریع} ملا تھا[1] اور اسی طرح بیشک وطن میں پڑہی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ ہوا ہے، لیکن سفر میں پڑہی جانے والی نماز میں بھی دو رکعتوں کا اضافہ ہوا ہے یا نہیں؟
 اس سلسلہ میں اہل بیت (علیھم السلام)  کی طرف سے نقل کی گئی روایتوں کے پیش نظر شیعہ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز دو رکعت کی صورت میں تشریع ہوئی ہے اور اس کے علاوہ دو رکعتیں صرف وطن میں پڑھنے کی صورت میں اضافہ ہوئی ہیں، لیکن سفر کے دوران نماز میں کوئی چیز اضافہ نہیں کی گئی ہے، بلکہ اسی پہلی صورت میں یعنی قصر ہی پڑہی جاتی ہے۔
اہل سنت کی روایتیں اور ان کے فقہا کا نظریہ:
مسافر کی نماز کے بارے میں اہل سنت کی طرف سے نقل کی گئی روایتیں اور ان کے فقہا کے نظریات یکساں نہیں ہیں، ان میں سے بعض شیعوں کے اعتقاد کے مطابق نظریہ رکھتے ہیں، یعنی ان کا یہ اعتقاد ہے کہ ابتدائی نماز پر کوئی چیز اضافہ نہیں کی گئی ہے  اس بنا پر سفر میں نماز صرف قصر پڑہی جاتی ہے، لیکن بعض افراد سفر میں نماز قصر اور پوری پڑھنے کے درمیان اختیار کے قائل ہوئے ہیں۔
اہل سنت کی متعدد روایتوں کے منابع میں نقل کیا گیا ہے کہ نماز قصر کی صورت میں تشریع ہوئی ہے اور وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا ہے، لیکن سفر میں پڑھی جانے والی نماز کے بارے میں موجود روایتیں تین حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں:
1-وہ روایتیں جو یہ بیان کرتی ہیں کہ نماز قصر کی صورت میں تشریع ہوئی ہے اور وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا ہے، لیکن سفر میں پڑھی جانے والی نماز میں کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اسی اپنی سابقہ {دو رکعتی }صورت میں باقی رہی ہے۔
محمد بن ہاشم بعلبکی نے ولید سے اور اس نے ابو عمرو اوزاعی سے اور اس نے زہری سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نماز کے بارے میں سوال کیا اور زہری نے جواب میں کہا:" عروہ نے عائشہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : خداوند متعال نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نماز واجب کردی کہ ابتداء میں دو رکعتوں کی صورت میں تھی اور وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعت کا اضافہ کیا گیا اور سفر کے دوران نماز اپنی حالت میں باقی رہی۔[2]"
وکیع کہتے ہیں: " ھشام بن عروہ نے اپنے باپ سے اور انہوں نے عائشہ سے نقل کیا ہے کہ عائشہ نے کہا:" جب نماز واجب ہوئی تو اس وقت دو رکعتوں کی صورت میں تھی اور اس میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا، نتیجہ کے طور پر وطن میں پڑھی جانے والی نماز چار رکعتی ہوئی[3]۔
عبیدہ نے وقاء بن ایاس سے اور انھوں نے علی بن ربیعہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) سفر پر نکلے اور واپس لوٹنے تک اپنی نماز کو دو رکعت پڑھتے رہے۔[4]
عثمان اور چار رکعتی نماز:
سفیان نے زہری سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت نقل کی ہے کہ:  نمازپنجگانہ دو دو رکعتوں میں تشریع ہوئی تھی، اور وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا اور سفر میں پڑھی جانے والی نماز اپنی حالت میں باقی رہی۔
زہری کہتے ہیں:" میں نے عمرہ سے پوچھا کہ پس عائشہ کیوں سفر میں نماز پوری پڑھتی تھیں؟
 انہوں نے جواب میں کہا: انہوں نے تاویل کی جس طرح عثمان نے تاویل کی تھی۔
حدیث کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: یہ واضح حدیث شافعی کی ہے اور مسلم نے اپنی کتاب" صحیح مسلم" میں علی بن خشرم سے روایت نقل کی ہے اور بخاری نے بھی عبداللہ بن محمد سے اور اس نے سفیان سے اس روایت کو نقل کیا ہے۔
محمد بن عبداللہ حافظ کہتے ہیں:" ابو الفضل محمد بن ابراہیم نے مجھے خبردی ہے کہ احمد بن سلمہ نے رقتیبہ بن سعید اور اس نے عبدالوحید بن زیاد سے اور اس نے اعمش سے اور اس نے ابراہیم  سے نقل کیا ہے کہ میں نے عبدالرحمن بن یزید سے سنا کہ وہ کہتے تھے: میں نے منی میں عثمان کی امامت میں چار رکعت نماز پڑھی، یہ قضیہ عبداللہ بن مسعود سے کہا گیا اور انہوں نے کلمہ استرجاع{ انا للہ و انا الیہ راجعون} پڑھا اور کہا: ہم منی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ساتھ اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھتے تھے، پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد ابو بکر کے زمانہ میں اور ان کے بعد عمر کے زمانہ میں بھی منی میں اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھتے تھے، کاش کہ میری دو رکعتی نمازیں قبول ہوتیں۔
عبدا لرحمن بن یزید سے نقل کیا گیا ہے کہ: عثمان نے منی میں چار رکعت نماز پڑھی اور عبداللہ بن مسعود نے کہا: ہم رسول اللہ کے ساتھ منی میں اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھتے تھے، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بعد ابوبکرکے ساتھ اور ان کے بعد عمر کے ساتھ بھی منی میں اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھتے تھے۔
حفص سے نقل کیا گیا ہے کہ: ہم نے عثمان کی خلافت کے ابتدائی دور میں منی میں اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھی ہیں اور بعد میں انہوں نے دو رکعتوں کا اضافہ کیا۔[5]
2-وہ روایتیں  جو یہ کہتی ہیں کہ: نماز قصر کی صورت میں تشریع ہوئی ہے اور سفراور وطن کا نام  نہیں لیتے تھے بعد میں نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ ہوا، اس روایت کے مانند کہ: عبید نے داود بن ابی ہند سے اور اس نے شعبی سے  نقل کیا ہے کہ: نماز ابتداء میں دو رکعتوں کی صورت میں واجب ہوئی۔ جب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے ہر دو رکعتوں پردو رکعتوں کا اضافہ فر مایا صرف نماز مغرب میں اضافہ نہ ہوا{ کیونکہ یہ نماز دو رکعتی نہیں تھی}۔[6]
یہ دو قسم کی روایتیں اگر چہ ابتداء میں ایک دو سرے  سے ٹکراتی ہوئی نظر آتی تھیں  لیکن چونکہ پہلی قسم کی روایتیں خاص اور دوسری قسم کی روایتیں عام ہیں، اس لئے اصول فقہ کا مشہورقاعدہ—ظہور خاص، ظہور عام پر اقوا ہے—دوسری قسم کی روایتیں پہلی قسم کی روایتوں سے تخصیص پاتی ہیں اور نتیجہ کے طور پرمذکورہ روایتوں کے معنی یوں ہوتے ہیں:" نماز میں دو رکعت کا اضافہ وطن میں ہوا ہے  نہ کہ سفر میں، یعنی وطن میں پڑھی جانے والی نماز میں دو رکعتوں کا اضافہ ہوا ہے۔
3-وہ روایتیں  جو یہ بیان کرتی ہیں کہ: نماز قصر کی حالت میں تشریع ہوئی ہے اور وطن میں پڑھنے کی صورت میں اس میں دو رکعتوں کا اضافہ ہوا ہے، اسی طرح سفر میں پڑھی جانے والی نماز میں بھی دو رکعتوں کا اضافہ ہوا ہے۔
حسین بن اسماعیل نے احمد بن تبعی سے اور اس نے قاسم بن حکم سے اور اس نے علاء بن زبیر سے اور اس نے عبدالرحمن بن اسود سے اور اس نے عائشہ سے نقل کیا ہے، عائشہ نے کہا:" میں عمرہ کے اعمال انجام دیتے وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہمراہ تھی، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی نماز قصر پڑھی، لیکن میں نے پوری پڑھی،    آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے روزے توڑ دئے، لیکن میں نے روزے رکھے، جب ہم مکہ میں داخل ہوئے تو میں نے عرض کی: اے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر قربان ہوں، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی نماز قصر پڑھی اور میں نے پوری پڑھی، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے روزے تو نہیں رکھے لیکن میں نے رکھے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فر مایا: احسنت یا عائشہ{ یعنی تم نے ایک اچھا کام انجام دیا ہے} اور مجھ پر اعتراض نہیں کیا-"[7]
لیکن بعض اہل سنت کے بیان کے مطابق یہ حدیث جھوٹی ہے اور اس پر کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے-[8] کیونکہ بعید لگتا ہے کہ عائشہ نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے برخلاف نماز پوری پڑھی ہو اور روزے رکھے ہوں  اور مکہ پہنچنے  تک پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے اس سلسلہ  میں کوئی سوال نہ کیا ہو۔
سفر میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور خلیفہ اول اور دوم کی نماز:      
ابن علیہ نے علی بن زید سے اور اس نے ابی نضرہ سے روایت نقل کی ہے کہ عمران بن حصین ہماری مجلس میں آگئے، حضار میں سے ایک جوان نے اٹھ کر حج، جنگ اور عمرہ کے دوران پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی نماز کے بارے میں سوال کیا، اس کے بعدعمران نے ہمارے سامنے کھڑے ہوکر کہا: اس جوان نے مجھ سے ایک سوال کیا ہے  میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس کا جواب سنیں  میں جنگ میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہمراہ تھا، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھیں، یہاں تک کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) مدینہ واپس لوٹے  میں حج میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہمراہ تھا، آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی تمام نمازوں کودو رکعتی پڑھا، یہاں تک کہ مدینہ واپس لوٹے  میں فتح مکہ کےوقت آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ہمراہ تھا، آنحضرت نے اٹھارہ شب مکہ میں قیام کیا، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی تمام نمازیں دو رکعتی پڑھیں اور اہل مکہ سے ارشاد فرمایا: آپ چار رکعت پڑھیں اور میں{ قصرپڑھتا ہوں} مسافر ہوں، میں نے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ہمراہ تین عمرے بجا لائے، لیکن آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے اپنی تمام نمازیں دو رکعتی پڑھیں یہاں تک کہ مدینہ واپس لوٹے میں نے ابو بکر کے ہمراہ حج ادا کیا ہے، ان کے ہمراہ جنگ کی ہے، لیکن انہوں نے بھی اپنی تمام نمازیں دو رکعتی پڑھیں، یہاں تک کہ مدینہ واپس لوٹے اور میں نے عمر کے ہمراہ کئی حج ادا کیے، لیکن انہوں نے بھی اس سفر میں اپنی تمام نمازیں دو رکعتی پڑھیں یہاں تک کہ واپس مدینہ لوٹے  میں نے عثمان کی خلافت کے دوران ان کے ساتھ سات بار حج ادا کیا ہے، لیکن انہوں نے بھی اپنی نمازیں دو رکعتی پڑھیں، لیکن بعد میں انہوں نے منی میں اپنی نمازیں چار رکعتی پڑھیں-"[9]
سفر میں چار رکعتی نماز پڑھنے کے سلسلہ میں خلیفہ سوم کا بیان:
ایوب اور بیہقی، خلیفہ سوم کے سفر میں چار رکعتی نماز پڑھنے کی توجیہ کے بارے میں کہتے ہیں: عثمان کے منی میں نمازتمام پڑھنے کا سبب  یہ تھا، کیونکہ انکے ساتھ صحرانشین مسلمان زیادہ تھے، اور عثمان انہیں سکھانا چاہتے تھے کہ نماز چار رکعتی ہے۔
حسنی، عبدالرحمن بن حمید سے اور اس نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ جب عثمان بن عفان نے منی میں اپنی نماز پوری پڑھی تو ان لوگوں کے لئےایک خطبہ پڑھا اور اس میں کہا :" اے لوگو؛ نماز میں سنت  رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور خلیفہ اول و دوم کی سنت ہے، لیکن اس سال ایک نیا مسئلہ پیدا ہوا ہے، میں ڈر گیا کہ لوگ اسی{ دو رکعتی نماز} کو سنت سمجھ بیٹھیں گے-"
البتہ بہتر تھا کہ خلیفہ سوم بھی پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے مانند اہل مکہ اور دوسرے لوگوں سے کہتے کہ: تم لوگ چار رکعتی نماز پڑھنا اور میں { قصر پڑھتا ہوں} مسافر ہوں۔
یونس نے زہری سے نقل کیا ہے کہ: جب عثمان نے طائف میں مال لے لیا اور وہاں پر قیام کرنے کا ارادہ کیا، تو انہوں نے اپنی نماز پوری پڑھی۔ اسی طرح مغیرہ نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ: عثمان نے اپنی نماز چار رکعتی پڑھی، کیونکہ انہوں نے اس جگہ کو اپنا وطن قرار دیا تھا۔
شیعہ راوی:
زرارہ اور محمد بن مسلم کہتے ہیں:" میں نے امام باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کی کہ: سفر میں نماز کے بارے میں آپ (علیہ السلام) کیا فرماتے ہیں، اس کی کیفیت کیا ہے اور کتنی رکعتیں ہیں؟ حضرت نے جواب میں فرمایا: خدا وند عزو جل ارشاد فر ماتا ہے:" واذا ضربتم فی الارض- - -" " اگر آپ سفر پر جائیں تو آپ کے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ نماز قصر پڑھیں-" پس سفر میں نماز کو قصر پڑھنا واجب ہے، جس طرح وطن میں نماز کو پورا پڑھنا واجب ہے۔ زرارہ اور محمد بن مسلم کہتے ہیں: ہم نے کہا کہ خداوند متعال فرماتا ہے:" آپ کے لئے کوئی حرج {گناہ} نہیں ہے-" اور یہ نہیں فرماتا ہے کہ:" ایسا کرنا، یعنی امرکے لفظ سے استفادہ کرکے نہیں فرمایا کہ قصر پڑھنا۔ جو اس کے واجب ہونے کی دلیل ہوتی، پس سفر میں قصر پڑھنا کیسے وطن میں پوری نماز پڑھنے کے مانند واجب ہے؟ حضرت نے فرمایا: کیا خداوند متعال نے صفا و مروہ کی سعی کے سلسلہ میں نہیں فرمایا ہے کہ "فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُناحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِما"؛ جو بھی حج یا عمرہ بجا لائے اس کے لئے کوئی حرج {گناہ}  نہیں ہے کہ صفا و مروہ کے درمیان چکر لگائے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ صفا و مروہ کی سعی واجب ہے؟
کیونکہ خداوند متعال نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)  نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کو بیان فرمایا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور اسی طرح سفر میں نماز قصر پڑھنا ایک ایسا عمل ہے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اس کو عملی جامہ پہنایا ہے اور خدا وند متعال نے اسی لمحہ اسے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے- - -
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ذی خشت[10] نامی ایک علاقہ میں سفر کیا، آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی نماز قصر پڑھی اور رو زہ نہیں رکھا اور یہ کام اس کے بعد سنت بن گیا- - -[11] جیسا کہ اس  سے پہلے بیان کیا گیا کہ نماز ابتداء میں دو رکعتی تشریع ہو ئی تھی، لیکن بعد میں ظہر، عصر اور عشا کی نمازوں میں وطن میں پڑھنے کی صورت میں دو رکعتوں کا اضافہ کیا گیا، جب ہم مسافر کی نماز میں اس کے اضافہ ہونے پر شک کریں، تو اصل عدم اضافہ ہے۔
نتیجہ
اس پوری بحث کو پڑھنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ روایات بھی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ سفر میں نماز قصر ہے اور اگر کسی نے اسے قصر نہیں کیا تو گویا اس نے خلیفہ سوم کی اتباع کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات :
[1] ابو عبد الرحمن، احمد بن علی بن شعیب بن علی بن نسائی نیشابوری، سنن نسایی، ج 2، ص 232، ح 490، موقع الإسلام، http://www.al-islam.com (المکتبة الشاملة) ؛ ابن ابی شیبه کوفی، مصنف ابن ابی شیبه، ج 2، ص 337، سایت یعسوب (المکتبة الشاملة)؛ ابو یعلی موصلی، مسند ابی یعلی موصلی، ج 66، ص 188؛ طحاوی، مشکل الآثار، ج 9، ص 272، سایت الإسلام، http://www.al-islam.com (المکتبة الشاملة).
[2] بو عبد الرحمن، احمد بن علی بن شعیب بن علی بن نسائی نیشابوری، سنن نسایی، ج 2، ص 232، ح 4900.
[3] ابن ابی شیبه کوفی، مصنف ابن ابی شیبه، ج 2، ص 337.
[4] وہی  ابن ابی شیبه کوفی، مصنف ابن ابی شیبه، ج 2، ص 337.
[5] بیهقی، سنن کبری، ج 3، ص 143، سایت، http://www.al-islam.com (المکتبة الشاملة.
[6] ابن ابی شیبه كوفي، مصنف ابن ابی شیبه، ج 8، ص 355؛ بیهقی، معرفه السنن و الآثار، ج 2، ص 352، http://www.alsunnah.com(المکتبة الشاملة)؛ طحاوی، مشکل الآثار، ج 9، ص 2722.
[7] دار قطنی، سنن دار قطنی، ج 6، ص 59، موقع وزارة الأوقاف المصرية، http://www.islamic-council.com (المکتبة الشاملة)۔
[8]محمد، رشید رضا، تفسیر القران الحکیم ( تفسیر المنار)، ج 5، ص 368 و 370، ناشر دار المعرفة برای طبع و نشر، بیروت، لبنان، طبع دوم۔
[9] ابن ابی شیبه كوفي، مصنف ابن ابی شیبه، ج 2، ص 337۔
[10] یہ جگہ مدینہ سے ایک دن کے فاصلہ پر ہے، یہاں تک ۲۴ میل{۸فرسخ} ہے۔
[11] صدوق، من ‏لا يحضره ‏الفقيه، ج 1، ص 434 و 435، صدوق، من لا يحضره الفقيه، انتشارات جامعه مدرسین، قم، سال 1413 هـ -ترجمه غفارى، ج‏2،باب (در بيان نماز سفر)، ص 110 - 1122.

Plain text

  • Allowed HTML tags: <a> <em> <strong> <span> <blockquote> <ul> <ol> <li> <dl> <dt> <dd> <br> <hr> <h1> <h2> <h3> <h4> <h5> <h6> <i> <b> <img> <del> <center> <p> <color> <dd> <style> <font> <u> <quote> <strike> <caption>
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
16 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.